کسی سے پیار کر لے یا کسی سے پیار ہو جائے
یہی آزار ہے تو پھر مجھے آزار ہو جائے
رسیلے ہونٹ گدرایا بدن اور چشم خوابیدہ
کوئی دیکھے اسے تو بے پیے سرشار ہو جائے
یہی آزادیٔ اظہار کا مطلب ہے کیا لوگو
زباں ترشول ہو جائے قلم تلوار ہو جائے
یہی رسم محبت ہے اسی میں لطف آتا ہے
کبھی انکار ہو جائے کبھی اقرار ہو جائے
منافق کا یہی طرز عمل پہچان ہے اس کی
کبھی اس پار ہو جائے کبھی اس پار ہو جائے
تبسم اس کے ہونٹوں کا بہاروں کی امانت ہے
وہ ہنس دے تو بیاباں بھی گل و گلزار ہو جائے
میں اپنا استغاثہ لے کے جاؤں کس عدالت میں
اگر دل ہی اسیر گیسوئے خم دار ہو جائے
متاع دل کے لٹنے کا گلہ کس سے کریں جا کر
کوئی قزاق ہی جب قافلہ سالار ہو جائے
صہیبؔ اپنی دعاؤں میں یہی اک ورد کرتا ہے
جو انساں ہیں انہیں انسانیت سے پیار ہو جائے