کسی کو دل میں بسا کے ہم نے نصیب اپنا جگا لیا
نہ فکرِ ساقی نہ فکرِ مینا غموں سے دامن چھڑا لیا
بھلے نظر سے ہی دور ہیں وہ مگر ہماری نظر میں ہیں
کبھی نظر بھی اٹھی ہماری نظر کو ہم نے چرالیا
کبھی تو ان کا رہا تصوّر تو یاد ان کی کبھی رہی
یہی تو دن رات کا فسانہ اِسی میں جی کو لگا لیا
نہ سوچا سمجھا نہ دیکھا بھالا ڈگر پہ اُن کی چلا گیا
قدم کبھی لڑکھڑاۓ بھی تو قدم کو ہم نے جما لیا
یہ ہی جو اپنی ہے بیقراری کہ ماہی جیسے بے آب ہو
کبھی تڑپنا کبھی مچلنا کہ چوٹ گہری ہی کھا لیا
نہ اثر کو قیس سے ہے مطلب نہ دشت وصحرا کی سیر کی
مٹا دیا جب خودی کو اٌس نے تو راز سارا ہی پا لیا