کسی کی نظر کرم نے سوئی ہوئی تو قسمت جگا دیا
Poet: عبدالحفیظ اثر By: عبدالحفیظ اثر, Mumbaiکسی کی نظر کرم نے سوئی ہوئی تو قسمت جگا دیا
جو درد سے آشنا نہیں تھے انہیں کو بسمل بنا دیا
کبھی مَچَلنا کبھی تڑپنا کبھی سسک کر آہیں بھرنا
یہی تو دن رات کا فسانہ اسی میں جیون بتا دیا
کبھی خرد کے ہوئے نہ تابع جنوں میں گزری یہ زندگی
یہ ایسی تھی کشمکش کہ جس نے وفا میں جینا سکھا دیا
کبھی زباں بھی ہلی نہ کوئی ہوئی نہ کوئی بھی گفتگو
ہوا اشارا کبھی تو ایسا کہ ماجرا سب سنا دیا
کبھی گزرنا بھی دل سے ایسا نہ کوئی آہٹ سنائی دے
کبھی تو آواز کوئی ایسی کہ اک کرشمہ دکھا دیا
سناؤں کس کو میں حال دل کا ملے نہ کوئی بھی اہل دل
کہ اہل دل کی تلاش میں ہی تو اپنا سب کچھ لٹا دیا
کبھی بھنور میں پھنسی جو کشتی ملا سہارا نہ جب کوئی
تو ان کی نظر کرم نے ڈوبی ہوئی وہ کشتی چلا دیا
تجھے اثر کیا خبر نہیں ہے کہ ٹوٹنے پر یہ دل تیرا
اسی سے نازاں ہوجائے کوئی کہ ہاری بازی جتا دیا
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






