کسی کی یاد میں تارے جو جھلملاتے رہے
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreکسی کی یاد میں تارے جو ۔۔۔۔۔جھلملاتے رہے
تمام زخمِ جگر میرے۔۔۔۔۔۔۔ جگمگاتے رہے
ترے پیار نے چھیڑا جو دل رُبا ۔۔۔۔۔۔۔۔نغمہ
تمام رات ستارے بھی گیت۔۔۔۔ گاتے رہے
وہ آئے بزم میں آنکھوں میں۔۔ مستیاں لے کر
پھر اِس کے بعد تو ساقی بھی۔۔ لڑکھڑاتے رہے
یہ راہ گزار ِ محبت ہے سب خبر ہے۔۔۔۔ ہمیں
وہ اور ہوں گے قدم جن کے۔۔ ڈگمگاتے رہے
نشیب ِ ہستی کی تیرہ نصیبیوں کی۔۔۔۔۔۔ قسم
فَرازِ دار پہ ہم ہی دیئے ۔۔۔۔۔۔۔جلاتے رہے
میرے وطن کی بہاروں کے اب یہی ہیں امیں
جو پھول بن کے صلیبوں پہ۔۔ مسکراتے رہے
نہ مِٹ سکا ہے کسی سے نہ مِٹ سکے گا ۔۔کبھی
وہ نقش دل کے لہو سے جو ہم۔۔۔ بناتے رہے
ہماری جان کے دشمن وہ ہی ہیں ۔۔۔۔درپردہ
تمام عمر لہو جن کو ہم ۔۔۔۔۔۔۔پلاتے رہے
اگرچہ دل کا دیا کر سکے نہ ہم۔۔۔۔۔۔ روشن
چراغِ راہِ محبت ہمیں ۔۔۔۔۔۔جلاتے رہے
میں جن کو بھایا نہیں ایک آنکھ بھی۔۔۔ یارو
سنا ہے غزلیں میری وہ بھی ۔۔گنگناتے رہے
میں دیکھتا جو رہا اُن کو بار بار۔۔۔۔۔۔۔ وسیم
وہ مسکراتے رہے اور ۔۔۔۔مسکراتے رہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






