کسی کے عشق کو اور پیار کو تم بھول گئے
Poet: ناظم زرسنر By: Nazim ZarSinner, Pakpattansharکسی کے عشق کو اور پیار کو تم بھول گئے
ہے ستم اپنے طلب گار کو تم بھول گئے
میرے تو دل پہ ہوئیں نقش تمھاری باتیں
ہے غضب اپنے ہی اقرار کو تم بھول گئے
اپنی ہستی ہی دعا میں تمھیں کیوں یاد رہی؟
کس طرح مجھ سے گنہگار کو تم بھول گئے
اپنے گلشن پہ خزاں دیکھ کے چھائی دو دن
ہم نشیں موسمِ گل بار کو تم بھول گئے؟
دیکھی پیشانی جب اُن کی تو وہیں بیٹھ گئے
دیکھ کر بولے وہ "رخسار کو تم بھول گئے؟"
اپنے آنے کے تمھیں یاد رہے لمحے چار
مجھ پہ برسوں کے کٹھن وار کو تم بھول گئے
بڑے بے فکر ہو کر چل رہے ہو پھولوں پر
اِسی رستے میں چھپے خار کو تم بھول گئے
رکھتے ہو یاد شب اپنی کی گل افشانی فقط
میری ہر صبحِ شرر بار کو تم بھول گئے
کتنے بھولے ہو سمجھ بیٹھے جہاں کو سب کچھ
تیز اِن سانسوں کی رفتار کو تم بھول گئے
زندگی جس نے گزاری یہ تمھاری خاطر
آج اُسی ناظؔمِ بیمار کو تم بھول گئے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






