کسی کے عشق کو اور پیار کو تم بھول گئے
Poet: ناظم زرسنر By: Nazim ZarSinner, Pakpattansharکسی کے عشق کو اور پیار کو تم بھول گئے
ہے ستم اپنے طلب گار کو تم بھول گئے
میرے تو دل پہ ہوئیں نقش تمھاری باتیں
ہے غضب اپنے ہی اقرار کو تم بھول گئے
اپنی ہستی ہی دعا میں تمھیں کیوں یاد رہی؟
کس طرح مجھ سے گنہگار کو تم بھول گئے
اپنے گلشن پہ خزاں دیکھ کے چھائی دو دن
ہم نشیں موسمِ گل بار کو تم بھول گئے؟
دیکھی پیشانی جب اُن کی تو وہیں بیٹھ گئے
دیکھ کر بولے وہ "رخسار کو تم بھول گئے؟"
اپنے آنے کے تمھیں یاد رہے لمحے چار
مجھ پہ برسوں کے کٹھن وار کو تم بھول گئے
بڑے بے فکر ہو کر چل رہے ہو پھولوں پر
اِسی رستے میں چھپے خار کو تم بھول گئے
رکھتے ہو یاد شب اپنی کی گل افشانی فقط
میری ہر صبحِ شرر بار کو تم بھول گئے
کتنے بھولے ہو سمجھ بیٹھے جہاں کو سب کچھ
تیز اِن سانسوں کی رفتار کو تم بھول گئے
زندگی جس نے گزاری یہ تمھاری خاطر
آج اُسی ناظؔمِ بیمار کو تم بھول گئے






