خواب سجائے آنکھوں میں
ہم نے کتنا صبر کیا ہے
نجانے زندگی مجھ کو
کہاں پر لے کے آئی ہے
مری ہر بات کا اب تو
کوئی مطلب نہیں ملتا
سبھی رشتے سبھی ناطے
مجھے اب غیر لگتے ہیں
سبھی قسمیں سبھی وعدے
مٹی کا ڈھیر لگتے ہیں
ویرانی میری آنکھوں کی
غمِ ہجراں سناتی ہے
مجھے اب گردشِ دوراں
یہاں تک لے کے آئی ہے
میں پھولوں کو اگر چھولوں
تو وہ مرجھا سا جاتے ہیں
جو منزل ڈھونڈنا چاہوں
ستارے روٹھ جاتے ہیں
میں اپنے سارے خوابوں کی
جو بیتے ان عذابوں کی
سناؤں داستاں کس کو
کسے فرصت یہاں پر ہے
غمِ ہجراں کے ماروں کی
جو دل سے داستاں سن لے