اے شرف چاہے ہے اگر وصل حبیب
نالہ کرتا رہ روز و شب جوں عندلیب
مریض عشق اور بےزار از جان ہوں
مرے دست پر نبض کیوں رکھے طبیب
رسم و راہ نہ جانے کہ ہر کوئی
دیار عاشقی میں مانند غریب
شربت دیدار خوش آتا ہے دل داروں کو
نصیب میں ہے یا ہوں میں بےنصیب
اس سے دور ہائے ہائے میں دور ہوں
مگر رگ جان سے بھی وہ مرے قریب
سر پر تنی ہے تیغ محتسب
دل میں پوشیدہ اسرار عجیب
بو علی شاعر ہوا ساحر ہوا
کرے ہے انگیزی خیالات غریب
'''''''''''''''''''''
اگر رند ہوں اگر میں بت پرست ہوں
قبول کر خدایا جو جیسا بھی ہوں
ننگ و عار نہیں بت پرستی سے
کہ یار بت ہے میں بت پرست ہوں
پیچ و تاب عشق میں گرفتار ہوں
دل اندر زلف پیچان کا بسیرا ہے
'''''''''''''''''''''