کلمئہِ عشق کی حقیقت
Poet: نعمان احمد عاجز By: Nouman Ahmad, Frankfurt Am Main کلمئہ عشق تو کئی بار سنا ہوگا تم نے
کیا کبھی اُسکی حقیقت کو بھی جانا تم نے
عشق وہ آگ ہے جب خٓلق کو لگ جاتی ہے
بُجھنے کے خُلق کو پھر خود ہی بُھلا دیتی ہے
کیسے بتلاؤں کیا ہے آتشِ عشق کی تاب
وہ ایسی آگ ہے سمندر بھی جلا دیتی ہے
سمندر کی موجوں سے جاکے پُوچھ حیاتِ عشق کیا ہے
کہ کتنے ڈُوب گئے پٓر آج بھی زندہ ہیں
دِیا تو عشق کا آندھی میں بھی جل جاتا ہے
جلتا ہے ایساکہ طوفاں بھی سمٹ جاتا ہے
سرکش موجوں کو معلوم ہے استقامتِ عشق کیا ہے
وہ ایسی وادی ہے طوفانِ نوح میں پناہ دیتی ہے
کبھی مزاق نہ اُڑانا کسی تیراک کا
کیا خبر کِتنوں کو طوفاں سے بچایا اُسنے
کسی زماں عاشق بھی جھوٹے ہوا کرتے تھے
یہ تو ہے عِشق کہ اُنہیں سچا بنا ڈالا ہے
سمندروں کو خوب خبر ہے آتشِ عشق کیا ہے
بُجھا نہ سکی گہرائیاں اُنکی ایسی آگ ہے وہ
ہستئِ عشق درکِ اسفل میں بھی رہتی ہے بلند
شان ہوتی ہے اُسکی ، گر نام ونشاں نہ رہے
کسی ملّاح پر کرنا نہ کبھی طعن و تشنیع
جانےکتنے طوفانوں میں ہےاُترا سفینہ اُسکا
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






