نظر اٹھا ادھر دل کو جلتا ہوا بھی دیکھ
اکیلا ہے یہاں پہ کون اپنے سوا بھی دیکھ
اک وعدے کے نبھا میں جس نے گزاری ہے زندگی
اس کی جفا بھی دیکھ اور اپنی وفا بھی دیکھ
کنارے سے گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا
تو میرے قریب آ اور میری چاہ بھی دیکھ
کہتے ہیں تیرے چہرے پہ ملتے ہیں میرے نقوش
کسی روز تو تنہائی میں تُو آئینہ بھی دیکھ
اک آشیاں جلا ہے سارے گلشن کو چھوڑ کر
آ کر دیار غیر میں یہ سانحہ بھی دیکھ
عثمان خدا سے اپنے نصیب کا شکوہ فضول ہے
اسکی رحمت شمار کر، اور اپنے گناہ بھی دیکھ