کوئی جگنو ، نہ دیا ہے ، نہ ستارہ کوئی
راہ دکھلائے ، نہیں ایسا سہارا کوئی
چن لیا اس نے کوئی اور مرے جیتے جی
اپنی توہین کرے کیسے گوارا کوئی
ہم سے نادان بھلا کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟
رب کی ہر بات میں ہوتا ہے اشارہ کوئی
بہتی جاتی ہے مرے دل کی شکستہ ناؤ
کاش مل جائے کہیں اس کو کنارا کوئی
تھام کر بیٹھ گئے دل کو ترے جانے پر
تھا نہ اب اس کے سوا اور تو چارہ کوئی
زندگی ایسے ہی رنگوں سے بنی ہے شاید
مل گئی جیت کسی کو ، تو ہے ہارا کوئی
پا لیا پیار ترا ، دے کے تجھے جاں اپنی
ایسی باتوں میں بھی ہوتا ہے خسارہ کوئی ؟
میں نے چاہا ہی نہ تھا ایسا، وگرنہ عذراؔ