کوئی آئے
Poet: صبیحہ صبا (نیویارک، امریکہ) By: Sunder Khan, K.S.Aآشفتہ سَرے، آبلہ پائے، کوئی آئے
اک شہر ھے نظروں کو بچھائے، کوئی آئے
سکھلائے جو تہذیبِ جنوں بے خبروں کو
مجنوں صفتے، قیس نمائے، کوئی آئے
کیا خوب ہو ٹھہرے جو شبِ تار سے پیکار
خورشید رخے، ماہ وشائے، کوئی آئے
آجائے ھے خط ایک نئے عذر کے ھمدوش
اے کاش کبھی خط کے بجائے کوئی آئے
پھر رنگِ محبت سے نکھر جائیں در و بام
برسات کی رُت کھینچ کے لائے، کوئی آئے
اب فن کے صنم خانے میں کوئی نہیں بہزاد
لفظوں میں نئے رنگ ملائے، کوئی آئے
اب لفظ و معانی کے دفاتر ھوئے تاریک
افکار کی پھر شمع جلائے، کوئی آئے
پھر بزم میں پھیلائے نئی بات کا جادو
فرزانوں کو دیوانہ بنائے، کوئی آئے
پھر بین کے لے آئے خزف ریزوں سے موتی
مالا کوئی اچھی سی بنائے، کوئی آئے
کیا جانئے کیوں وِردِ زباں ھے یہ تمنا
آئے کوئی آئے، کوئی آئے، کوئی آئے
ھمراہِ صبا صحنِ گلستاں میں سحر دم
خوابیدہ گلابوں کو جگائے، کوئی آئے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






