کوئی آفت یہ ناگہانی ہے
زیست زخموں کی اک کہانی ہے
سر پہ سورج کی آگ ہے لیکن
یاد جاناں بہت پرانی ہے
میں بھی اس آشنا سے ڈرتی ہوں
لہجہ اس کا بھی پانی پانی ہے
میری منزل تمہارے قدموں میں
میری الفت یہ جاودانی ہے
اک انا ہی جو پاس ہے میرے
وہ بھی دشمن کی مہربانی ہے
میرے ہونٹوں پہ جو تبسم ہے
تیری چاہت کی اک نشانی ہے
وشمہ عزت کا پاس ہے جگ میں
ورنہ دولت تو آنی جانی ہے