کوئی آکے دل میں سما گیا یونہی قربتیں بھی بڑھا گیا
بڑھی دھڑکنیں کبھی دل کی تو وہ ہمیں سے نظریں چرا گیا
ملے دل سے دل یہ ہے آرزو یہ ہے اپنی ہر گھڑی جستجو
جو ہوا ہو عہد وفا کبھی وہ قرار جان پہ آگیا
یہ تو زخموں سے ہوا چور دل کہ سناؤں کس کو میں حال دل
نہ ملے کوئی بھی تو اہل دل کہ زمانہ وہ تو چلا گیا
کوئی کیوں ستائے کہ دل ہے یہ کوئی سنگ و خشت نہیں ہے یہ
گریں اشک کے ہی تو موتی بس یوں ہی دریا بہتا چلا گیا
تجھے کچھ خبر بھی تو ہے اثر تیرے دل کے ٹوٹنے پہ اگر
کوئی نازاں ہو کہ اسی میں بس یہ مقدر تیرا جگا گیا