کوئی الجھن میں کھوگیا کسے اظہار کی مانگ
اکثر نینوں میں بھٹکتی ہے خمار کی مانگ
وہ گرجکر صحراؤں سے رخ موڑ لیتا ہے
مفلسی ویرانیوں میں رہہ گئی بہار کی مانگ
سہارے بھی کہیں غیر مستقل سے لگتے ہیں
اور زندگی کو پڑگئی جیسے اُدھار کی مانگ
کئی چاہتوں کے محرم سرگردان گھمتے ہیں
مگر کہاں کہاں ہوتی ہے سُدھار کی مانگ
فرد کردار کو حالتیں بے ترتیب کرتی ہیں
کسی کو بھی نہ رہی یوں انتشار کے مانگ
عشق حقیقی کا گر زینہ ہے سنتوشؔ تو
مجھے اس سے بڑہ کر کس مجاز کی مانگ