نگاہیں نہ پھیرو اس طرح
دھڑکن نہ رُک جائے کہیں
پتھر تو سینے میں نہیں
دل احساسات کا مارا نہیں
جذبات بھی دبتے ہیں
چاہت بھی چبھتی ہے
نہ جھکتی ہے، نہ اُٹھتی ہے آنکھ
نہ رُکتی ہے، نہ چڑھتی ہے سانس
غم ہی تو ہے دل کا ٹھکانہ
دل ہی تو ہے غم کا آشیانہ
پتھر کی مُورت سے
محبت کا ارادہ نہیں
وفا کی تمنا نہیں
الفت کا تقاضا نہیں
دل کی ڈھڑکن جو نہ سمجھے
نظر کی گفتگو جو نہ سمجھے
جذبوں کا بیاں جو نہ سمجھے
اُس کی شکایت کا ارادہ نہیں
بات توڑی بھی نہیں، بنائی بھی نہیں
تم میری بھی نہیں، پرائی بھی نہیں
ہر دل سے خطا ہو ہی جاتی ہے
تم مجھ کو نہ چاہو، کوئی بات نہیں