میں جب بولوں لبوں سے بس تمہارا دل کیا سمجھا
کوئی بھی اور قصہ اس زباں سےکم سنا سمجھا
نہ ملنا، مل کے چھٹ جانا ستم یوں بھی ہے اور یوں بھی
عجب فرقت کا عالم ہے کہ غم یوں بھی ملا سمجھا
وہاں شوق و محبت سے یہاں احساسِ فرقت سے
مرا ہر اشک فانوسِ حرم یوں بھی ہوا سمجھا
تمہاری چاہتوں کے نام سے صبحیں بلاتے ہیں
ادائے بے نیازی سے تمہارا پوچھنا سمجھا
اٹھی ہے ہوک سی دل میں تمہارے لوٹ جانے پر
بہاروں کا ہمارے ہاتھ سے موسم عطا سمجھا
مسلسل رنج سہنے سےبھی آخر ایک دن لوگو
کچھ اپنوں کو پرکھنے کی مہارت ہو ادا سمجھا
وفادوروں کی منڈی میں محبت بک بھی سکتی ہے
دلوں کے بیچ میں وشمہ تجارت ہو سزا سمجھا