کوئی خیال بڑی دیر تک نہیں رہتا
مجھے ملال بڑی دیر تک نہیں رہتا
ترے جواب مرے ارد گرد رہتے ہیں
کوئی سوال بڑی دیر تک نہیں رہتا
میں تیرے بعد کبھی بھی سنبھل نہیں پایا
مرا کمال بڑی دیر تک نہیں رہتا
وہ آئے گا تو کہاں دور مجھ سے جائے گا
یہ احتمال بڑی دیر تک نہیں رہتا
کوئی برس ہو فقط مار ہے دسمبر کی
کوئی بھی سال بڑی دیر تک نہیں رہتا
وہ ایک حد میں ہی رکھتا ہے سلسلے مجھ سے
سو میں نڈھال بڑی دیر تک نہیں رہتا
وہ پوچھتا ہے تو کہتا ہوں ٹھیک ہوں لیکن
یہ حال چال بڑی دیر تک نہیں رہتا