طلوع ء غم ہے ہونے کو کوئی صداء دو
کوئی امید ہے جانے کو کوئی صداء دو
یہ ویرانی اداسی بے بسی سی کیوں؟
کوئی مسکان لانے کو کوئی صداء دو
ضرورت ہے تمہاری بہت اے میرے ہم دم
میرے پاس آنے کو کوئی صداء دو
محبت ہے جدائیوں پہ پھر اکتفا کیوں ہو
کسی کے لوٹ آنے کو کوئی صداء دو
کوئی تو بنو رھبر مسیحائی کرو کوئی
ظلمت میں شمع جلانے کو کوئی صداء دو
سر ء شام ہے ابھی اندھیرا باقی ہے
ستاروں! چاند نکلنے کو کوئی صداء دو
بہاریں روٹھ رہی ہیں صباء لوٹ جاۓ گی
"گلوں"! خوشبو منانے کو کوئی صداء دو
محبت سے پکارو تجدید ء وفا کرو کوئی
کچھ سانسیں بتانے کو کوئی صداء دو
عذاب ء جان ہے سکوت اتنا بھی جاناں
کوئی عہد نبھانے کو کوئی صداء دو
باد ء سموم ء وقت نے جلا دیا عنبر
اب میرے سنورنے کو کوئی صداء دو