کوئی فرقت کا تھا اشک جو آنکھوں میں کھٹکتا رہا
کبھی تو تھی یاد کی ھچکیاں کبھی یہ دل دھڑکتا رہا
میری راہ میں اداؤں نے کچھ سہائی دی تھی پھر
عبث زلفوں نے کی رات اندھیری تو بھٹکتا رہا
یوں حال میں رہہ کر بھی ماضی کو کہاں بھلا پائے
کل کا کچھ پتہ کرو یوں ہر لمحے سے جھگڑتا رہا
یہ زندگی کھیل ہے جو جیت گیا میرا میت وہی
دوڑنے کو بھی منزل نہیں ہارا اپنی تھکن دیکھتا رہا
وقت کو پنکھ ملے ، اب انہیں توقف ہی نہیں
یہ عمر قدامت کو پہنچی تو اُس جنم کا سوچتا رہا