کوئی قفس قیامت کا کوئی جیتا ہے ریت کے سوا
وہ دن بھی گوارا نہ سمجھا جو گذرا تیری دید کے سوا
طفولیت سے حالت نے تو تذکرے میں رکھا ہے
یوں قدامت تک کون جیئے گا کسی امید کے سوا
تیری پلکوں کی نمی میں کچھ دیر ٹھہر گیا مسافر
غم کے ماروں کو کہاں آشیانہ ملا کرُید کے سوا
یہ کیسی زباں کی جگرسوزی کہ کچھ کہے بغیر
نہ جانے کتنے رکھے ہیں اس نے درد چیخ کے سوا
آؤ کہ کچھ دیر فلک پہ چاند بن کے اتریں
کہ اب تو تمام عمر کٹ چکی ہے عید کے سوا
تم اپنی سرفرازی کے عالم کو نامعقول رکھو
مجھے اپنے حصے کا کچھ نہیں چاہیے بعید کے سوا
دنیا مخملی کتنی تھی روباہ سیرت کہ سنتوش
فرقت سے سب تکلیفیں مل گئی خرید کے سوا