کوئی لمحہ یاد آنے لگا
بچھڑتا سمہ یاد آنے لگا
کچھ سرور مٹ بھی گئی
کوئی گھنہ یاد آنے لگا
الجھنوں کی دربدری کو کہیں
چھپہ اجنہ یاد آنے لگا
خد کا ہی خیال کیا تھا
رخسار دانہ یاد آنے لگا
بے سہاروں کو چلتے چلتے پھر
کوئی شانہ یاد آنے گیا
اشک کو بہنے کی ضد میں
میرا نینہ یاد آنے لگا