کوئی مہمل قدامت سے گذر گیا
اے! عاشقی تجھے ہوش کہاں ہے
تیرے آنکھوں سے پیء کر نکل گئے
یہ تو مئکشی تجھے ہوش کہاں ہے
وہ تیرے غرض سے اونچا ہوگیا
اپنی سرکشی تجھے ہوش کہاں ہے
ہم تو گرفت میں ہی گنہگار نکلے
اے! دل لگی تجھے ہوش کہاں ہے
یہی افسوس افسانے بنتے ہیں
بلکہ افسردگی تجھے ہوش کہاں ہے
جلا تھا دل کہ دھواں نہیں نکلے
اس طرح آتشی تجھے ہوش کہاں ہے
بچھڑنے والوں کا ہے غم تغافل
ابکہ بے بسی تجھے ہوش کہاں ہے
اس پتھر جہاں سے کچھ نہیں ملے گا
مگر زندگی تجھے ہوش کہاں ہے