خموش بیٹھے ہو کیوں ساز بے صدا مجھ سے
کوئی پیام تو دو رمز آشنا مجھ سے
کہیں تمہاری روش خار و گل پہ بار نہ ہو
ریاض دہر سے گزرے چلو صبا مجھ سے
مجھے ہمیشہ رہ زیست کے دوراہوں پر
اک اجنبی ہے جو ملتا ہے آشنا مجھ سے
تمام عمر رہا سابقہ یزیدوں سے
مرے لیے تو یہ دنیا ہے کربلا مجھ سے
امید ان سے وفا کی تو خیر کیا کیجے
جفا بھی کرتے نہیں وہ کبھی جفا مجھ سے
یہ دہر بھی تو ہے مے خانۂ الست نما
رہو یہاں بھی کسی رند پارسا مجھ سے
زباں پہ شکوۂ بے مہریٔ خدا کیوں ہے؟
دعا تو مانگیے جو وشمہ سے بد دعا مجھ سے