کوئی کم توجہی نہیں تغافلے ہیں پھر بھی
ہم اتنے دور نہیں کچھ فاصلے ہیں پھر بھی
ہر پلک تو پرنم نہ بھی ہو مگر
کہیں کہیں آنکھوں کے توصلے ہیں پھر بھی
تیرے تراشی منزلوں سے وہ کترا گئے
مگر ہمارے ہاں کچھ حوصلے ہیں پھر بھی
تو اپنے گلشن سے کتنے لامکان کرے گا
کچھ پرندوں کے تو گھونسلے ہیں پھر بھی
آخر ایک کارواں ہوتا تو روک بھی لیتے
یہاں تو ہزاروں ایسے قافلے ہیں پھر بھی
کسی ایک ہی طلب کو طلب ملی سنتوشؔ
اور رہہ گئے کئی مطالبے ہیں پھر بھی