چاہنے سے ہی کوئی شخص جو اپنا ہوتا
کیسے ممکن تھا مرا خواب پرایا ہوتا
لوگ اپنے ہی مسائل میں مگن بھی گم بھی
تو بھی اس بھیڑ میں ہوتا تو اکیلا ہوتا
مسئلہ جینے کا درپیش کبھی خوفِ اجل
مل بھی جاتا وہ اگر کرب نہ تھوڑا ہوتا
آدمی جذبہِ بےتاب کی مٹی سے بنا
رزقِ ممنوع نہ کھاتا تو بھی ایسا ہوتا
کارواں ساتھ سہی درد ہیں اپنے اپنے
تو زمانے سے نبھاتا بھی تو تنہا ہوتا
میں بگولے کی طرح پھرتا نہ گلیوں گلیوں
کوزہ گر تو نے اگر پیار سے جوڑا ہوتا
خواب بوڑھے بھی تو ہو جاتے ہیں مرتے بھی ہیں
انتظار آپ کا ہوتا بھی تو کتنا ہوتا