کون جھانکے ہے بھلا اپنے گریبانوں میں
وسعتِ قلب ہی باقی نہیں انسانوں میں
اب یہ حالت ہے کہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا ہے
نام تیرا تھا کبھی دل کے سبھی خانوں میں
اب ذرا ایک نظر ہم پہ بھی ڈالو جاناں
ہم بھی شامل ہیں ترے در کے نگہبانوں میں
میں بھی ماں جیسی ریاست کے قدم چومونگا
کاش مل جائے کہیں مجھ کو یہ افسانوں میں
علم و تحقیق کے آگے ہی کریں خم سر کو
اک یہی ہم کو بچا سکتا ہے طوفانوں میں
ذہنِ انسان نے حکمت کے دریچے کھولے
فلسفہ سائنس و تحقیق کے میدانوں میں
خوں پسینے کے عوض کم ہی ملی ہے اجرت
ٰزیست مزدور کی گزری ہے پریشانوں میں
دستِ مزدور کے ہاتھوں پہ سجے یہ چھالے
خوف طاری ہے جسے دیکھ کے ایوانوں میں
میں نے مزدور کے گھر میں ہی خدا کو پایا
تم جسے ڈھونڈتے پھرتے رہے ایقانوں میں
دورِ حاضر کے شہنشاہ سے ہم تو شیراز
بر سرِ جنگ ہیں افلاس کے میدانوں میں