کون پھر سے بلا رہا ہے مجھے
Poet: م الف ارشیؔ By: Muhammad Arshad Qureshi, Karachiکون پھر سے بلا رہا ہے مجھے
خواب جھوٹے دکھا رہا ہے مجھے
کون بیٹھا ہے میری راہوں میں
" دیکھو صحرا پکارتا ہے مجھے"
مجھ سے رہتا ہے دور وہ اکثر
اور یوں وہ آزما رہا ہے مجھے
ایک مدت کے بعد بھی آخر
اجنبی کی طرح ملا ہے مجھے
اپنی باتوں سے پھر گیا ہے وہ
بس اسی بات کا گلہ ہے مجھے
اس کی جانب نہیں میں پلٹوں گا
وہ اب اتنا تو جانتا ہے مجھے
بات یہ بھی تو اک حقیقت ہے
صبر کرنے کا حوصلہ ہے مجھے
اپنا اب بھی وہ مانتا ہے مجھے
میری چاہت کا یہ صلہ ہے مجھے
ساری دنیا میں ڈھونڈ آیا ہوں
تجھ سا کوئی نہیں ملا ہے مجھے
خوب واقف ہوں تیری باتوں سے
کیوں تو الفت جتا رہا ہے مجھے
کیا کہوں تیری اس ادا کو میں
خود ڈبو کر بچا رہا ہے مجھے
کتنا نادم کھڑا ہے ساحل پر
جو بھنور میں پھنسا رہا ہے مجھے
کب تلک ساتھ تم نبھاؤ گے
اب نہیں کوئی آسرا ہے مجھے
اب کہاں حوصلہ وہ پہلے سا
پھر بھی اتنا رلا رہا ہے مجھے
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






