کون ہے ہمسفر جانتا کچھ نہیں
Poet: Shahzad anwar khan By: Shahzad anwar khan, Sailani nagar,akola,maharashtra,Indiaکون ہے ہمسفر جانتا کچھ نہیں
ہے کہاں اسکا گھر جانتا کچھ نہیں
ہوگی قاتل نظر جانتا کچھ نہیں
ہے کہیں تو مگر جانتا کچھ نہیں
اے خدا یہ بتا حور ہوگی صنم
کیا حسینوں میں مشہور ہوگی صنم
سادگی ہے یا مغرور ہوگی صنم
پھول جیسی وہ کمزور ہوگی صنم
کیا لچکتی کمرجانتا کچھ نہیں
ہے کہیں تو مگر جانتا کچھ نہیں
سچ تو ساتھی بتا کیا کلی باغ کی
گنگناتی ہوئی راگنی باغ کی
خوبصورت حسیں دلکشی باغ کی
طاریقی دور وہ روشنی باغ کی
زندگی ہے کدھر جانتا کچھ نہں
ہے کہیں تو مگر جانتا کچھ نہیں
زلف یادوں میں میری سجاتی ہے کیا
وہ نگاہوں میں مجھ کو بناتی ہے کیا
سہلیاں گفتگو میں ستاتی ہے کیا
گیت میری طرح گنگناتی ہے کی
ہوگی بالی عمر جانتا کچھ نہیں
ہے کہیں تو مگر جانتا کچھ نہیں
جسم ہوگا چمن زلف منظر حسیں
مرمری سا محل جیسے دلبر حسیں
رقص کرتا ہوا ہو سمندر حسیں
مہ جبیں کی طرح ہوگی انور حسیں
کیا طلسمی زہر جانتا کچھ نہیں
ہے کہیں تو مگر جانتا کچھ نہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






