اتنی بھی تو رفاقت اچھی نہیں اے دل
لوگ پلٹ جائیں تو خاکی تن میں جان نہیں بچتی
عجب سی دشمنی ہے میری سانسوں کو مجھ سے
میں خلاصی چاہوں تن سے میر ساتھ نہیں دیتی
قربتوں کے رستے میں کانٹے ہی تو ملتے ہیں
جانے چوٹ کھانے کی لذت کیوں نہیں مٹتی
فطرت کے آئینے میں خود کو دیکھوں تو اکثرسوچوں
کوڑیوں کے داموں یہ محبت کیوں نہیں بکتی
ہاتھوں کی لکیروں میں کیئں آدھے ادھورے نام
پھر تقدیر کے سکندر کو اک وہ ہی صورت کیوں نہیں دیکھتی
عشق ہی سوال ہے تو عشق ہی جواب ہے
تو پھر آنکھوں کی نمکین بارش کیوں نہیں روکتی