کچھ آج بھی کہتے ہیں مسلمان مری جاں
کافر ہیں سبھی شہر کے انسان مری جاں
لگتا ہے کہ فرصت سے تجھے رب نے بنایا
مبہوت جو ہر ایک ہے انسان مری جاں
وہ ایک ہے جسکے ہے مقدر میں ہزیمت
کشتی ہے مری اور ہے طوفان مری جاں
آلام جدائی سے کہاں مجھ کو افاقہ
کچھ اور کرو درد مجھے دان مری جاں
ہو نیند جہاں موت کی مانند وہاں پر
کب دیکھنا پھر خواب ہے آسان مری جاں
دل چیز ہے کیا نذر تری جان بھی کی ہے
اب کتنا ادا اور ہو تاوان مری جاں
یہ عشق کا جذبہ ہے جو ہم ملنے لگے ہیں
ورنہ تھی کہاں جان یا پہچان مری جاں
انسان کو انسان ، سمجھتے نہیں یکسر
ہیں ایسے بڑے شہر میں انسان مری جاں
ہر ایک تمہارا ہی ، طلبگار لگے ہے
ہو حسن کی دولت سے بھری کان مری جاں
مقطع لئے مفتی جو ترے کوچے میں آیا
مطلع تھا مرے فکر کا عنوان مری جاں