اداس آسماں پہ پھیلی حیا کی لالی
میں نے پلکوں سے تیرا نام ابھی چوما ہے
مجھے معلوم ہے میں تیری چشم تر میں ہوں
یہ حسن اب بھی تیری دید کو ترستا ہے
تمہاری یاد ہی ٹھہری ہماری زندگانی
کچھ اس طرح کی انتہا سے تجھے چاہا ہے
بے وجہ وجد میں آئی ہیں دھڑکنیں دل کی
بے نوازوں نے کہاں خامشی کو توڑا ہے