کچھ اور بات ھوتی
Poet: Unknown By: M.Z, karachiتجھے دیکھتی ھیں آنکھیں تو یہ بولتی ھیں آنکھیں
تو جو کاش اشک ھوتی تو کچھ اور بات ھوتی
تجھے ھر خوشی میں اپنی میری آنکھ ڈھونڈتی ھے
یہ جو سب سے چھپ کے روتی تو کچھ اور بات ھوتی
تجھے سامنے بیٹھا تو یہ آنکھ نا جھپکی
تجھے تکتے تکتے سوتی تو کچھ اور بات ھوتی
تیرے گرتے آنسو کو جو میں ھاتھ سے مٹاتا
پھر تو روتے روتے ھنستی تو کچھ اور بات ھوتی
میری آنکھ جب بھی کھلتی تیری دید کو ترستی
بنا آنسو کے روتی تو کچھ اور بات ھوتی
میرے دل کی ھر یہ دھڑکن تجھے یاد اب بھی کرتی
تیرے نام سے دھڑکتی تو کچھ اور بات ھوتی
میرے بھتے آنسو نے تجھے ھر دعا میں مانگا
بس دعا قبول ھوتی تو کچھ اور بات ھوتی
تیرا یوں بچھڑ کے جانا میرے ھاتھ کو چھڑا کر
تو جو جاتے جاتے رکتی تو کچھ اور بات ھوتی
مجھے عشق نے رلایا تجھے عشق نے ھنسایا
کبھی تو بھی یوں تڑپتی تو کچھ اور بات ھوتی
تھی ضھیر کی تمنا کہ یہ سانس چلتے چلتے
تیرے بازؤں پہ رکتی تو کچھ اور بات ھوتی
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






