کچھ اور قریب آؤ کہ تنہائی بہت ہے
سانسوں میں ہی بس جاؤ کہ تنہائی بہت ہے
ہم زندگی بھر ساتھ نہیں مانگتے تم سے
دو پل ہی ٹھہر جاؤ کہ تنہائی بہت ہے
جس طرح سے برسات کے قطرات گلوں پر
یوں مجھ پہ برس جاؤ کہ تنہائی بہت ہے
دل شہر ہے جو بن ترے ویران پڑا ہے
رہنے کے لیے آؤ کہ تنہائی بہت ہے
راتیں نہیں کٹتی ہیں ثباؔت اب بنا تیرے
للّٰہ چلے آؤ کہ تنہائی بہت ہے