کچھ تو یاد ہو گا تمہیں بھی
Poet: NEHAL GILL By: NEHAL, Gujranwalaکس طرح ملے تھے ہم راہوں میں
دھڑکے تھے دل اِک دوجے کے سینوں میں
کچھ تو یاد ہو گا تمہیں بھی
تم جب مسکرا کے دیکھتی تھی
مری جانب قرار سا ملتا تھ
اُداس چہرہ مرا خوشی سے
کومل گلاب سا کِھلتا تھ
کچھ تو یاد ہو گا تمہیں بھی
کچھ تو یاد ہو گا تمہیں بھی
جب شبِ مہتاب اِک ساتھ گزارتے تھے
پیار سے اِک دوجے کو جان جان پکارتے تھے
چاند ہنستا تھا دیکھ کے محبت ہماری
اور تارے بھی دیکھ کے جھومتے تھے
کچھ تو یاد ہو گا تمہیں بھی
کس قدر تم مری فکر کرتی تھی
یہ نہ کرو، وہ نہ کرو اِس سے تمہیں تکلیف ہوگی
کیا ہوا جو تُو یوں بے خبر بن کے بھیٹی ہو
تُم تو کومل تھی پھر کیوں پتھر بن کے بیھٹی ہو
میں کچھ بھی نہیں بُھولا
کچھ تو یاد ہو گا تمہیں بھی
تُم جو روزانہ خط لکھتی تھی میں نے سبھال رکھے ہیں
محبت کے پنچی دل کے خون سے پال رکھے ہیں
گلشن ہجر کے طوفانوں میں بھی بحال رکھے ہیں
تم نے کچھ نہ رکھا مرا پاس اپنے
میں نے ترے غموں کے بھی جنجال رکھے ہیں
مجبوریوں کی ہر دیوار گرا کر
لوٹ آئو رسموں سے خود کو چُھڑا کر
میں تری ہی رہوں گی سدا نہال
کہا تھا تُو نے مجھے سینے سے لگا کر
محبت کے دور کا اِک اِک پل یاد ہے مجھے
کچھ تو یاد ہو گا تمہیں بھی
کچھ تو یاد ہو گا تمہیں بھی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






