کچھ خیال کچھ دھڑکنیں سب کو نذر ہوتا ہے
تیرے شہر میں اور کیا کیا حشر ہوتا ہے
میرے قلب سے کئی لمحے چراکر بھی
ہر بے حسی کا میرے راہ سے گذر ہوتا ہے
حُسن راستی کو کہو کبھی اداس نہ رہا کرے
تیری آس پہ کسی کا جیون بسر ہوتا ہے
اُس آئینہ دار کو کیوں کوستے ہو سبھی
جہاں کے ہر شخص کا اپنا مظہر ہوتا ہے
کبھی خود سے اُلجھ کر تو پُوچھ لیتے کہ
اداس لوگوں کا پھر کون سا ڈگر ہوتا ہے
تُو کبھی جو اُس رخ سے بھی نہ گذرا
تجھے کیا پتہ سنتوشؔ کہ کون بدر ہوتا ہے