وہ زیست کے صفحوں کو بکھرنے نہیں دیتا
یہ کیسا مسیحا ہے کہ مرنے نہیں دیتا
کچھ زخم اداؤں سے وہ کاندھے پہ لگا کر
اک درد محبت کو اترنے نہیں دیتا
پھیلی ہے خدو خال پہ ہجرت کی سیاہی
یہ کرب وفا چہرہ سنورنے نہیں دیتا
جب چاند کے آنے کی امیدیں بھی ہیں روشن
کیوں بام پہ تارہ بھی چمکنے نہیں دیتا
اس قید مسافت سے مرے دل کا مسافر
میں دیکھوں کہ کیسے وہ گزرنے نہیں دیتا
اک آس لگائے ابھی بیٹھی ہوں میں وشمہ
یہ شہر بھی بے آس پلٹنے نہیں دیتا