کچھ سوچو کیا کرنا ہے
اب جینا ہے یا مرنا ہے
کچھ نہ ہو جب کھونے کو
پھر کسی سے کیا ڈرنا ہے
ہجر کے مارے لوگوں نے
اب کس کیلئے سنورنا ہے
جب ڈوبنا ہی مقصد ہے
کیا ندیا ہے کیا جھرنا ہے
کیوں تنکے میرے سمیٹتے ہو
بس مجھ کو تو بکھرنا ہے
جب مل ہی گیا لقبِ آوارگی
اب تو ہر حد سے گُزرنا ہے
گنوانے کو اب رہا کیا ہے
لب ِدلنشیں پہ مگر نا ہے
کہیں تو کوئی راہ ہو گی
رضا دل ِیار میں اُترنا ہے