کچھ سہاروں کے منظر پھر نہ لوٹے
میرے یاروں کے منظر پھر نہ لوٹے
پت جھڑ تو یونہی ہم پہ پروان ہے
بچھڑی بہاروں کے منظر پھر نہ لوٹے
زندگی کی کشتی نے گہرائی نہیں ناپی
اور کناروں کے منظر پھر نہ لوٹے
نظاروں کو تکتے تکتے نظر تھک گئی
تیرے اشاروں کے منظر پھر نہ لوٹے
راست قدموں سے راہ نہیں چُھوٹی سنتوشؔ
لیکن فراروں کے منظر پھر نہ لوٹے