خواہشوں کی زنجیر میں جکڑے ہوئے کچھ لوگ
بے سبب اپنی تقدیر سے روٹھے ہوئے کچھ لوگ
ہنستے ہیں دکھاوے کو وہ جانے کیوں عائش
جو دیکھو اگر اندر سے تو بکھرے ہوئے کچھ لوگ
سہتے ہیں ستم سب کےمگر اف نہیں وہ کرتے
کیوں کرتے ہیں ایسا وفاوں بھرے کچھ لوگ
سن سن کے صدائیں پلٹے نہ جو اب تک
جانے کہاں رہتے ہیں بھٹکے ہوئے کچھ لوگ
مانا ک کچھ ہم بھی تغافل شعار ہیں عائش
پھر کیوں نہیں آ ملتے ہم سے ہنستے ہوئےکچھ لوگ