عمر ساری کٹی یہاں کے لئے
کچھ نہ کر پائے ہم وہاں کے لئے
اپنے اندر ہی گھٹتا رہتا ہے
جینا مشکل ہے بے زباں کے لئے
روتا ہے پر زمیں سے مل پانا
کتنا مشکل ہے آسماں کے لئے
اتنا کھل کر نہ دل عیاں کیجے
چھوڑئے کچھ تو داستاں کے لئے
تو ہی رکھ حق باغبانی مگر
جینے دے ہم کو گلستاں کے لئے
نا سمجھ تھے بہارں کتنی حسن
ہم نےقربان کیں خزاں کے لئے