کچھ یوں بھی مسکرانا چاہتا تھا
بند لبوں میں گنگنانا چاہا تھا
دیدِ در کی ہر کشش میں
دل بھی کچھ بہکانا چاہا تھا
حَسین بدن کو جھنجوڑ کر تیرے
آپ اپنا یوں مہکانا چاہا تھا
کہ مست جال میں زلفوں کے
مکمل خود کو دفنانا چاہا تھا
رکتی سانسوں میں ابھرتی آگ کو
ہوش کھو کر بجھانا چاہا تھا
نا جانے کیوں ہر دم جاناں
اِک اِک شعر دوہرانا چاہا تھا
عُمیر نے ہو کر بے بس تجھے
روم روم میں بسانا چاہا تھا