کھلتے کھلتے لب و رخسار ۔ خدا خیر کرے
پھر کسی قتل کے آثار ۔ خدا خیر کرے
اک طرف آتش اوہام اک طرف ساقی
درمیاں سانس کی دیوار ۔ خدا خیر کرے
ہے یہ منزل کا تقاضہ یا مقدر اپنا
ہر خوشی آنسوؤں کے پار خدا خیر کرے
کبھی گرداب سے شعلوں سے کبھی وحشت سے
زندگی بر سر پیکار ۔ خدا خیر کرے
اک فقط میں ہی منتظر نہیں مسیحا کا
آئینہ آئینہ بیمار ۔ خدا خیر کرے
وقت نے جیت کے معنی ہی بدل ڈالے ہیں
اچھی لگنے لگی ہے ہار ۔ خدا خیر کرے
کو بکو حسن کی تحریر نظر آنے لگی
روبرو خمر پر خمار ۔ خدا خیر کرے
دم بدم ذوق تجلی سا جاگ اٹھتا ہے
خم بہ خم زلف تابدار ۔ خدا خیر کرے
میں نے جذبات کے سیلاب کو روکا تو بہت
آج پھر آمد اشعار ۔ خدا خیر کرے