کھلنے نہ پاۓ تجھ پہ جو ، وہ در نہیں ہیں ہم
خود دار ہیں ، غرور کا پیکر نہیں ہیں ہم
کرنا ہے تو کرو ہمیں مجھے قائل دلیل سے !
مانیں نہ بات ایسے بھی خود سر نہیں ہیں ہم
دے دیں گے اپنی جان بھی مانگو جو پیا ر سے
لیکن کسی بھی جبر کے قائل نہیں ہیں ہم
محسوس کر سکو تو کرو روُح سے ہمیں
آنکھوں کو جو لبھاۓ وہ منظر نہیں ہیں ہم
رکھنا ہے تو قفس میں ہمیں شوق سے تو رکھ
لیکن نہ بھوُل جانا کہ بے پر نہیں ہیں ہم
وہ پھل نہیں تو جس کو سہولت سے توڑ لے
مانا تری رسائی سے باہر نہیں ہیں ہم
جیسا ہے چاہے سر پہ کوئی سائبا ں تو ہے
عذراؔ خدا کا شکر ہے بے گھر نہیں ہیں ہم