کھلی نظر سے نہ سپنے حسیں دِکھا مجھ کو
لبوں پہ کوئی حقیقت ہے تو سنا مجھ کو
جلا رہا ہے مجھے غم کا آ تشیں سورج
سزا کی ذد میں ہوں پھر آ کے تو بچا مجھ کو
میں لوٹنا نہیں چاہوں گی پھر سرِ ساحل
بنا کے کشتیٔ کاغذ نہ یوں بہا مجھ کو
گِرا دیا ہے نگاہوں سے مجھ کو اپنوں نے
یقیں کا دے کے سہارا ذرا اُٹھا مجھ کو
محبتوں میں دکھاوے کی میں نہیں قائل
وفا پہ شک ہے تو سو بار آزما مجھ کو
نہ آ سکوں گی ترے پاس اب میں دوبارہ
نہ اِس طرح سے خیالوں میں گنگنا مجھ کو
ہے دوست اچھا وہی جو ہو اک محاسب بھی
میں خود کو جان سکوں آئینہ دکھا مجھ کو
ہے تو غلط تو یہ تسلیم کر کھلے دل سے
غلط ہوں میں تو عطا کر کوئی سزا مجھ کو
بنا کے عذراؔ بہانہ میری حفاظت کا
بڑے سلیقے سے منظر سے مت ہٹا مجھ کو