ہوا آغاز گفتگو کا راہ درمیان سفر
ازل کی خاموشی ٹوٹی کسی یک موڑ جا کر
کر دی ظاہر اس نے اپنی وفا کی وسعت
مسرور دل ہوا میرا الفاظ زباں پا کر
رہتا تھا گم صم یونہی دیار عشق میں
توڑے قفل صبر کے دل کی بات لب پہ لا کر
انتظار اظہار میں کیسے گزرے دن اے سبحانی
کس قدر سمٹا ہوگا وہ خودی کو یونہی جلا کر