کھلےُ ہیں شوق کے دَر ، پھول بھی ہے خوشبو بھی
تم آ بھی جاوْ اِدھر ، پھول بھی ہے خوشبو بھی
لیا بہار نے بوسہ تمہارے قدموں کا
تبھی تو راہ گزر پھول بھی ہے خوشبو بھی
ہے مست مست ہوا ، تتلیوں کا رقص بھی ہے
کہ آج پیشِ نظر پھول بھی ہے خوشبو بھی
وفا کی راہ میں یہ کیا حسیں مقام آ یا
گزر رہی ہے سحر ، پھول بھی ہے خوشبو بھی
بسی ہے یوں تری صورت ہماری آ نکھوں میں
جدھر جدھر ہے نظر ، پھول بھی ہے خوشبو بھی
تمہارا ہاتھ جو آ ئے ہمارے ہاتھوں میں
تو زندگی کا سفر ، پھول بھی ہے خوشبو بھی
قر یب آ ئے ہیں دو دل زمین پر جب سے
نظامِ شمس و قمر ، پھول بھی ہے خوشبو بھی
اُٹھا اے دیدہء بیباک لطفِ نظاّرہ
جھکی جھکی سی نظر ، پھول بھی ہے خوشبو بھی
حسین تر ہے یہ اِعجاز تیرے نشتر کا
کہ زخم زخم جگر ، پھول بھی ہے خوشبو بھی
جو چوم لیں مرِے اَشعار سرخ ہونٹوں کو
تو شاعری کا ہنر ، پھول بھی ہے خوشبو بھی