کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
یہ دل بہلتا نہیں تیرے بن بہاروں میں
میں ڈھونڈتا ہوں تجھے ان حسیں نظاروں میں
مری نگاہوں سے کیوں خود کو چھپانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
حسین پیروں کی خاطر یہ پھول لایا ہوں
نجانے کتنی تمنائیں لے کے آیا ہوں
تری جدائی مرا ضبط آزمانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
ہنسی کو بھول گئے،اپنا حسن کھونے لگے
اداس تیرے لیے یہ گلاب ہونے لگے
گھٹا بھی تیرے لیے اشک اب بہانے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی
کھلے ہیں پھول تری یاد مجھ کو آنے لگی
عجب اداسی مرے دل پہ آج چھانے لگی