کھڑی کرتا ہے رستے میں دیوار کہیں کہیں
شاید اُس کے دل میں ہے پیار کہیں کہیں
گماں ہوتا ہے اُس کی نادان حرکتوں سے
ملتے ہیں محبت کے آثار کہیں کہیں
چپ کے تالے کھلنے لگے ہیں دھیرے دھیرے
چھیڑتا ہے باتوں باتوں میں ذکرِ یار کہیں کہیں
رُلا دیتا ہے مجھے ٗ رو پڑتا ہے خود بھی
بننا چاہتا ہے وہ میرا غم خوار کہیں کہیں
نگاہیں جھکا لیتا ہے محفل میں بیٹھے ہوئے
سجے ہیں اُس دل کے کوچہ و بازار کہیں کہیں
دل میں کیا ہے مگر صاف صاف نہیں کہتا
شاید وہ بھی ہے محبت کا گنہگار کہیں کہیں