رُت بہاروں کی جو آئی تھی کہ تم یاد آئے
رُخ صبا پھیر کے شرمائی تھی کہ تم یاد آئے
دل کے دروازے پہ آہستہ سی دستک دے کر
یاد ماضی کی جو آئی تھی کہ تم یاد آئے
بات بگڑے ہوئے عرصہ ہوا، مدت گزری
بات پر بات جو آئی تھی کہ تم یاد آئے
جب بھی برکھا مرے آنگن میں چھلک کر برسی
برق لہرائی، گھٹا چھائی کہ تم یاد آئے
جب کسی شوخ کے کاندھے سے کبھی آنچل سرکا
زلف بل کھائی نظر آئی کہ تم یاد آئے
چودہویں شب کو بھری بزم میں مہتاب نے جب
چادر حسن بچھائی تھی کہ تم یاد آئے
زخم پر زخم سہے، پھر بھی مگر آہ نہ کی
عشق نے چوٹ جو کھائی تھی کہ تم یاد آئے