نہیں آساں منازل دل کو سمجھایا بھی کرتے ہیں
جنوں میں سر کو دیواروں سے ٹکرایا بھی کرتے ہیں
اگر آنکھوں مں نہ یکھو تو سمجھو دل میں ہیں آنسو
کہ چلتے قافلے صحرا میں رک جایا بھی کرتے ہیں
نہ اتنا مان ہاتھوں کی لکیروں پر کرو جاناں
کبھی مٹھی میں انگارے سمٹ آیا بھی کرتے ہیں
گزرنا ان حسیں لمحات سے کچھ آگہی لے کر
کہ یہ لمحات دیواروں میں چنوایا بھی کرتے ہیں
میں اکثر اس تسلی پر بچھا رکھتا ہوں پلکوں کو
کہ جانے والے موسم لوٹ کے آیابھی کرتے ہیں
میری نا یافتی پہ جاؤ نہ اے ریشمی کرنو
یہی ذرے کبھی مہتاب بن جایا بھی کرتے ہیں
تمہاری صبح روشن میں نہیں جن کی کوئی وقعت
وہی جگنو میری شاموں کو مہکایا بھی کرتے ہیں